بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں افغانستان کے بگرام ایئر بیس کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر اپنے تازہ ترین بیان میں دعویٰ کیا کہ: "اگر افغانستان بگرام ایئر بیس ان لوگوں کو واپس نہیں کرتا جنہوں نے اسے بنایا تھا، یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ، تو برے واقعات رونما ہوں گے!"
انھوں نے 27 ستمبر (2025) کی پریس کانفرنس میں بگرام کی تزویراتی پوزیشن کو امریکہ کے لئے اس کی اہمیت کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا: "ہم بگرام کو افغانستان کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کی وجہ سے اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ یہ ايئر بیس چین کے جوہری میزائل بنانے کے مقام سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔"
ٹرمپ کے بگرام کے دعوے پر افغان فوج کے کمانڈر کی طرف سے ردعمل
ان بیانات کے جواب میں افغان فوج کے کمانڈر، فصیح الدین فطرت کا شدید ردعمل سامنے آیا اورانھوں نے اس اسٹریٹجک بیس کے حوالے سے کسی بھی قسم کی بات چیت یا مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا: "حال ہی میں کچھ لوگوں کی طرف سے یہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ گویا ہم نے بگرام ایئر فیلڈ کی واپسی کے لئے افغانستان کی اسلامی امارت کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ ہم افغان عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری زمین کے ایک انچ کے بدلے بھی کوئی سودا قطعی طور پر ناممکن ہے۔"
بگرام: سرد جنگ سے لے کر امریکی قبضے تک
بگرام ایئر بیس، جو کابل کے شمال میں 40 کلومیٹر اور پروان صوبے کے مرکز چاریکار کے جنوب مغرب میں 11 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، افغانستان کے سب سے اہم فوجی بنیادی ڈھانچوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
یہ بیس اصل میں 1950 کی دہائی میں سوویت یونین نے بنایا تھا، لیکن افغانستان پر نیٹو کے قبضے کے بعد، امریکہ نے اسے مکمل طور پر دوبارہ تعمیر اور جدید بنایا۔
اس بیس میں تین بڑے ہینگر، ایک کنٹرول ٹاور، کئی سپورٹنگ عمارتیں اور 130,000 مربع میٹر کا پرواز کا احاطہ موجود ہے۔ اس کا مرکزی رن وے، جو 3.6 کلومیٹر لمبا ہے، بمبار اور بھاری مال بردار ہوائی جہازوں کی میزبانی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
• 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی آپریشن انڈیورنگ فریڈی (Operation Enduring Freedom) کے دوران، بگرام امریکی اور نیٹو کے فضائی اور زمینی کارروائیوں کا مرکز بنا۔
ایف 15 ای امریکی طیارے کی بگرام میں لینڈنگ
• 18 جون 2011 کو، غیر ملکی فوجی دستوں کی تعیناتی میں اضافے کے ساتھ، یہ بیس ایشیا کے قلب میں مغرب کا ایک اہم لاجیسٹک مرکز بن گیا۔
آناکونڈا آپریشن سے لے کر مہلک ڈرون طیاروں کی پروازوں تک
• مارچ 2002 میں آناکونڈا آپریشن (Operation Anaconda) کے دوران، سی آئی اے (CIA) کے اسپیشل ایکٹیویٹیز ڈویژن (SAD) کے خصوصی دستے، امریکی خصوصی دستوں اور شمالی اتحاد (افغانستان کی بچاؤ کے لئے اسلامی قومی متحدہ محاذ) کے ساتھ مل کر بگرام میں تعینات تھے۔ یہ آپریشن شاہی کوٹ وادی میں القاعدہ اور طالبان کے عناصر کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔
• اس کے بعد کے سالوں میں، بگرام جدید ترین آلات جیسے MQ-9 ریپر ڈرونز کا گڑھ بن گیا؛ یہ ایسے ڈرون ہیں جو GBU-38 JDAM گائیڈڈ بم لے جا سکتے تھے اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں فوجی اہداف کو نشانہ بنا سکتے تھے۔
امریکی اور نیٹو افواج اس بیس کا استعمال مشترکہ فوجی مشقوں کے انعقاد کے لیے بھی کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ کی میرین کور کے دستوں نے بگرام میں چیک جمہوریہ کی فوج کی جانب سے منعقدہ ایک فائرنگ مقابلے میں CZ Scorpion اسلحے کے ساتھ حصہ لیا تھا۔
بگرام کی جاری کردہ تصاویر نے 1980 کی دہائی میں سوویت سوخو-25 اور حالیہ دہائیوں میں امریکی A-10 ہوائی جہازوں کے درمیان موازنہ پیش کیا ہے، جو چار دہائیوں تک غیر ملکی طاقتوں کے فوجی قبضے اور استعمال کے دوران اس بیس میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
بگرام میں طالبان کا مارچ امریکی سازوسامان کے ساتھ
2021 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے اچانک انخلا کے بعد، بگرام ائیر بیس طالبان کے قبضے میں آ گیا۔ اس واقعے کے بعد کے ابتدائی ہفتوں میں، تصاویر اور رپورٹس سامنے آئیں جن سے پتہ چلا کہ طالبان نے اسی بیس پر، امریکی فوج کے چھوڑے گئے فوجی سازوسامان کا استعمال کرتے ہوئے، ایک فوجی مارچ منعقد کیا ہے۔
31 اگست 2021 امریکی قبضے سے ملک کی آزادی کی پہلی سالگرہ کا جشن
ان تصاویر، جنہیں بین الاقوامی میڈیا میں وسیع پذیرائی ملی، افغانستان میں ریاستہائے متحدہ کی 20 سالہ فوجی موجودگی کے اختتام اور خطے کے ایک اہم ترین امریکی اڈے کا کنٹرول طالبان کے حوالے ہونے کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔
چین کے ساتھ جغرافیائی-سیاسی مقابلہ؛ بگرام کی امریکی بحالی سے واشنگٹن کا پوشیدہ ہدف؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیانات میں بگرام کو برقرار رکھنے کا بنیادی مقصد افغانستان کی سلامتی نہیں بلکہ چین پر قابو پانا بتانے کی کوشش کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بیس چین کے جوہری میزائل بنانے کے مقام سے محض ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد، ٹرمپ نے کم از کم 20 بار مختلف انٹرویوز اور تقاریر میں کہا ہے کہ امریکہ کو بگرام اڈا نہیں کھونا چاہئے تھا۔ تقریباً تمام تر مواقع پر، انھوں نے فوراً چین کا نام لیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ: "چین نے بگرام پر قبضہ کر لیا ہے۔"
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کا اشارہ سنکیانگ کے علاقے میں چین کی پرانی جوہری تنصیبات کی طرف تھا؛ جہاں ماضی میں جوہری تجربات کیے جاتے تھے۔ تاہم، شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے اپنی تزویراتی پیداوار ملک کے مرکزی علاقوں میں منتقل کر دی ہے اور بگرام میں بیجنگ کی فوجی موجودگی کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور طالبان نے بھی ٹرمپ کے بگرام میں چین کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔
چین کی جوہری صلاحیت میں اضافے پر امریکہ کی تشویش
پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق، عوامی جمہوریہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی 2024 کے وسط تک اپنے جوہری ذخائر کو 600 وارہیڈز تک بڑھانے میں کامیاب ہو گئی ہے؛ یہ ایسی تعداد ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔
ایسی صورت حال میں، ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ بگرام کی بحالی کو چین کو روکنے کی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر ایجنڈے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؛ یہ ایک ایسا رویہ ہے جس کا افغانستان اور خطے کے بہت سے اہم کھلاڑیوں کی طرف سے سخت مقابلہ کیا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ